اسلامی اتحاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر : سید محمد مجتبیٰ علی رضوی
تمہید
پروردگارعالم نے تمام جانداروں کو مختلف صفات اور شناخت کے ساتھ خلق کیا ہے ۔ ہزاروں قسم کے جاندار ہیں اور سب کا رہن سہن ، طور طریقہ ،طبیعت اور مزاج الگ الگ اور مختلف ہے لیکن جو چیز اکثر ذی روح مخلوقات میں مشترک ہے وہ مل جل کر رہنا ہے ،کو ئی بھی جانور ہو اپنی صنف کے جانداروں کے سا تھ مل جل کر رہتا ہے ،اسی طرح مل جل کر رہنے کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ تمام جانور اتحاداور با ہمی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہیںاور یہ صفت ہمیں ان کی طبیعت میں ملتی ہے ،تویہ تھی جانوروں کی مثال،اور دوسری طرف اشرف مخلوقات ہو نے کا دعویدار انسان ہے جو مل جل کر رہنے کا اقرار بھی کرتا ہے ، فطرتاً سماجی زندگی گذار نے کا عادی بھی ہے اورسماج سے الگ رہ کر بھی زندگی نہیں گذار سکتا لیکن اس کے با وجود اپنے مفاد اور اغراض کی چا ہت اور مال و متاع کی لا لچ میں وہ اپنے ضمیر کی اس آواز پر کان نہیں دھرتا جو اسے با ہمی یکجہتی اور اتحاد کی طرف دعوت دیتی ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ تبا ہی کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور برا ئیا ں عام ہو جا تی ہیں ۔
تمام آسمانی ادیان متحد ہو کر رہنے کی دعوت دیتے ہیں ،بالخصوص اسلام نے تو اتحاد اور با ہمی یکجہتی پر کا فی زور دیا ہے اور اختلافات کے نقصانات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ ترقی اور کا میابی حاصل کر نے کے لئے اتحاد ایک اہم وسیلہ ہے ۔اس کا سب سے بڑا فا یدہ یہ ہے کہ معاشرے میں سکون اورامن اور صلح و کی فضا قا ئم ہو جاتی ہے ۔لیکن یہ مسلمان ہے جو امن و سکون کا اتنا اہم اور قیمتی سرما یہ رکھنے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ اس سے فا ئدہ نہیں اٹھا رہا ہے بلکہ فرقوں میں بٹاجا رہا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:”اِتَّحِدَ الْمُسْلِمُونَ عَلَیٰ اَنْ لَا یَتَّحِدُوا” مسلمانوں نے اتحاد نہ کر نے پر اتحاد کررکھاہے ۔اسلام کو جتنا نقصان بیرونی دشمنوں سے ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان با ہمی اختلافات اور دا خلی خانہ جنگی سے ہوا ہے ۔اور یہ سب اتحاد نہ ہونے کے سبب ہوا ہے۔ مولا ئے کا ئنات نے جب ظا ہری حکو مت کی باگ ڈور سنبھا لی تواس وقت آپ کے سا منے سب سے بڑی مشکل لوگوں کا اختلاف تھی ۔آپ نے اس بات کا شکوہ بھی کیا ” ہمارے دشمن باطل پر ہو نے کے باوجود متحد ہیں لیکن تم لوگ حق پر ہو نے کے بعد بھی پرا کندہ ہو ”
اسلام کی مسلسل تاکیدکے باوجود مسلمان فرقوں میں بٹتے چلے گئے جس سے اتحاد اسلامی کا شیرازہ بکھر گیا ۔گذشتہ قومیں بھی جب تک متحد رہیں بڑی شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی گذارتی رہیں، لیکن جب آپسی خلفشار اور اختلافات کا شکار ہو ئیں تب ان کی سا ری شان و شوکت خاک میں مل گئی اور تاریخ کے صفحوں میں مدفون ہو کر ایک عبرت آموز سبق بن کر رہ گئیں۔ مسلمانوں کے سامنے اتنے سارے سبق تھے لیکن اس کے بعد بھی درس عبرت لینے کے بجا ئے خود اسی دلدل میں کود پڑے ۔اور اسلامی ہیبت کو برباد کردیا ۔ہم مسلمان تو متحد ہو نے کے زیادہ اہل ہیں اس لئے کہ نہ تو ہما رے دین میں تحریف ہوئی ہے اور نہ ہی شریعت محمدی منسوخ ہو ئی ہے بلکہ یہ دین تو قیا مت تک با قی رہنے وا لا ہے۔
اتحاد کے سلسلے میں ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ
بہت سے لوگ اتحاد کی مخالفت کرتے ہیں ان میں سے کچھ تو اپنے مفادات کے تحت اس کی مخالفت کرتے ہیںاس طرح کی مخالفت میں اندرونی اور بیرونی دونوںہی دشمن شا مل ہیں ،دشمن اسلام کی ترقی سے خا ئف ہیں تو اندرونی عناصر اس بات سے خا ئف ہیں کہ مسلمان اگر متحد ہو گئے تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑجا ئے گا ، کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اتحاد کے معنی و مفہوم کو صحیح طریقہ سے سمجھا ہی نہیں ہے اور اس سلسلے میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ،اس بنا پر وہ اتحاد کی مخالفت کر تے ہیں۔ان کی نظر میں اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں چلے جا ئیںاور اپنی شناخت مٹا دیں۔
ایسے لوگ اتحاد کو دوسروں کے آگے جھکنا سمجھتے ہیںجبکہ اتحاد کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمام قومیں اپنی تہذیب ،ثقافت اور اپنا مذہب چھوڑ کر ایک سا نچے میں ڈھل جا ئیں بلکہ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ تما م فرقے مشترکہ مسا ئل میں ایک ہو جا ئیں جیسے مسلمانوں کے تمام فرقے تو حید کے قا ئل ہیں تو اسی مسئلہ میں ایک ہو جا ئیں۔ ایک مسئلہ پر اگر ہم سب متفق ہو گئے” کلمہ تو حید” کے سا تھ سا تھ” تو حید کلمہ” کا بھی مظا ہرہ کر نے لگے تو پھر دشمن بھی سر نگوں ہو جا ئے گا اور مسلمانوں کے آ پسی اختلافات بھی کم ہو تے نظر آئیں گے ،اسی سلسلہ میں علامہ فقید کاشف الغطاء فر ما تے ہیں :بُنِیَ الْاِسْلاَمُ عَلَی کَلِمَتَیْنِ کَلِمَةُ التَّوحِیْدِ وَ تُوحِیْدُ الْکَلِمَةِ ١ اسلام کی بنیاد دو کلموں پر ہے” کلمہ ٔتو حید” اور ” تو حید ِکلمہ” ۔ یعنی مسلمانوں کو ایک صدا اورہم آواز ہو کر رہنا چا ہیئے۔
چھو ٹے چھو ٹے گروہ کو گمراہ کر نا زیادہ آسان ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ہم مشترکہ عقا ید ، مقاصد اور اہداف میں ایک ہو کر اسلام دشمن طاقتوں کے مقا بل میں ایک مضبوط طاقت بن سکتے ہیں۔اسلام دشمن طاقتوں کی تو شروع سے ہی یہی پا لیسی رہی ہے کہ پھو ٹ ڈا لو اور حکو مت کرو ،اس سیاست کا شکار تقریبا تمام قو میں ہو ئیں ہیں لیکن مسلمانوں سے کم ۔اتحاد کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور آ ج کے دور میں تو کا فی ضرورت ہے کیو نکہ تمام دشمنان اسلام متحد ہو کر اسلام کے خلاف سر گرمیوں میں مشغول ہیں لیکن یہ مسلمان ہے جو اتنی بربادی اور آفات کے بعد بھی خواب غفلت میں محو ہے
اتحاد کی اہمیت
اسلام دشمن طاقتوں کے لئے یہ بات بالکل ہی عیاں ہے کہ اگر مسلمان متحد ہو گئے تو اسلام کو پوری دنیا میں پھیلنے سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے آ گے کسی کی کو ئی بھی تعلیم نہیں چلے گی اس لئے انہیں ایک نہ ہو نے دو اور یہ جا ہل مسلمان ابھی بھی اتحاد اسلامی کی طاقت سے بے خبر ہیں خاص کر سربرا ہان مملکت جو اسلامی حکو مت کے دعویدار ہیں وہ اسلام کو نہ صرف بدنام کر رہے ہیں بلکہ اپنی مملکت کو بچا نے کے لئے اسلام کی جڑیں کھو کھلی کر رہے ہیں اور اسلام کو ناقا بل تلا فی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔مسلمانوں کی جہالت اور پسماندگی کا ایک بڑا سبب عدم اتحاد ہے ۔ اتحاد ایک اچھے سماج کے لئے بہت بڑی ضرورت ہے اس کے بغیر سکون کی زندگی میسر نہیں ہو سکتی ہے۔
ہر دور میں بشر کی ضرورت ہے اتحاد وجہ شرف ہے با عث عزت ہے اتحاد
فخر بشر ہے نا زش ملت ہے اتحاد سب سے بڑی سماج کی طاقت ہے اتحاد
قائم اک اتحاد کے دم سے نظام ہے
اس کے بغیر زیست بشر کی حرام ہے
قرآن کریم میں اتحاد کا پیغام
قرآن کر یم ایک مکمل پیغام ہے جس میں بشریت کی دنیوی اور اخروی دونوں جہاں کی سعادتو ں کا ذکر ہے اسی کے سا تھ ساتھ نقصان دہ چیزوں کو بھی بیان کر دیا گیا ہے ۔اس عظیم کتاب میں صرف عبادات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ تمام چیزوں کا بیان ہے اورایک کا میاب اسلامی زندگی گزارنے کے تمام اصول بیان کئے گئے ہیں انہیں اصولوں میں سے ایک اصول اتحاد ہے۔جب تک اتحاد نہ ہو گامعا شرے میں سکون و امن کاقائم ہوناناممکن ہے لہٰذا قرآ ن نے مختلف جگہوں پر اتحاد اور با ہمی یکجہتی پر کا فی زور دیا ہے چنا نچہ ارشاد ہو تا ہے (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) ٢ اور تم سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔اس آیت میں بالکل وا ضح الفاظ میں مسلمانوں کو با ہمی یکجہتی کے سا تھ رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور تفرقہ او رپرا کندگی سے روکا جا رہا ہے۔
شہید مطہری کہتے ہیں کہ اس آسمانی کتاب کا یہی پیغام ہے کہ مسلمان آپس میں متفرق اور پرا کندہ نہ ہوں اور متحد ہو کر رہیں۔٣ اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم انسان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو نے کا حکم دے رہا ہے کہ تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو ۔ اس آیت میں مسلمانوں کے با ہمی اتحاد کے لئے جسے ملاک و معیار قرار دیاگیا ہے وہ ”حَبْلُ اللّٰہِ”ہے علماء و مفسرین نے اس کے کئی معنی بیان کئے ہیں ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فر ما یا : اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّی قَدْ َترَکْتُ فِیْکُمْ حَبْلَیْنِ اِنْ اَخَذْ ُتمْ بِھِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی اِحْدَھُمَا اَکْبَرُ مِنْ آخَرَ کِتَابَ اللّٰہِ حَبْل مَمْدُوْدِ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ وَعِتْرَتِیْ اَہْلُ بَیْتِی۔۔۔٤ اے لوگو! میں تمہا رے درمیان دو رسیاں چھوڑے جا رہا ہوں اکر تم ان دو نوں سے منسلک رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے وہ کتاب خدا کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک ہے اور دوسرے میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں۔ اسی کتاب میں ابان بن تغلب سے روا یت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر ما یا : نَحْنُ حَبْلُ اللّٰہِ الَّذِی قَالَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً ٥ہم ہی حبل اللہ ہیں جس سے تمسک اور پیروی کا حکم دیا جا رہا ہے ۔
علا وہ تفسیر نور میں حضرت علی سے منقول ہے کہ حبل اللہ سے مراد قرآن ہے ۔
تفسیر نور الثقلین میں آیا ہے کہ حبل اللہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔
علمائے اہل سنت نے بھی اس آیت کے جو معنی بیان کئے ہیں وہ سب اتحاد پر ہی دلالت کرتے ہیں ۔ عالم اہل سنت حسین بن مسعود بغوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں 🙁 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِجَمِیْعاً )یہاں حبل اللہ سے مراد قرآن ہے کہتے ہیں :اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنِ ۔٦
تفسیر جلالین میں” وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ ” سے مراد دین خدا سے تمسک کرنا ہے۔٧
کتاب التسہیل لعلوم التنزیل میں صاحب تفسیر لکھتے ہیں یہاں لفظ حبل کوکنایة استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے مراد قرآن کریم ہے اور سب کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اس کو سب مل کر تھام لیں ۔٨
شواہد التنزیل میں اس آیت کی تفسیر میں حضور اکرم ۖ کی ایک حدیث پیش کی ہے۔ آپۖ فر ما تے ہیں : مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَرْکَبَ سَفِیْنَةَ النَّجَاةِ وَ یَسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیٰ وَ یَعْتَصِمَ بِحَبْلِ اللّٰہِ فَلْیُوَا لِ عَلِیًّا وَ لِیَاتَمَّ بِالْھُدَاةِ مِنْ وُلْدِہِ۔جو بھی کشتی نجات پرسوار ہو نا چا ہے اور عروہ وثقیٰ سے تمسک کر نا چا ہے اور خدا کی رسی کو پکڑنا چاہے تو اسے چا ہیئے کہ علی اور ان کی اولادسے تمسک کرے ۔ ٩
اس کے علاوہ حبل اللہ کی تفسیر میں حضرت اما م جعفر صادق کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں آپ فرما تے ہیں :نَحْنُ حَبْلُ اللّٰہِ الَّذِی قَالَ اللّٰہُ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جمیعاً الآیة فَالْمُسْتَمْسِکْ بِوِلَایَةِ عَلِیُّ ابْنِ اَبِی طَالِبٍ اَلْمُسْتَمْسِکُ بِالْبِرِّ فَمَنْ تَمَسَّکَ بِہ کَانَ مُومِناً وَ مَنْ تَرَکَہ کَانَ خَارِجاً مِنَ الْاِیْمَانِِ ۔ہم ہی حبل خدا ہیں جسکے سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لو، علی کی ولایت کا اقرار کر نے والا ہی نیکی پر ہے اور جو ان سے تمسک کرے وہ مومن ہے اور جو ان کو چھوڑ دے وہ ایمان سے خارج ہے۔١٠
تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں رسول اکرم کی حدیث بیان کرتے ہیں: آپۖ فرما تے ہیں : میں تمہا رے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا ہے جو آسمان سے زمین تک ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دو نوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر ہم سے آ ملیں ۔١١
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ شیعہ و اہل سنت دونوں فرقوں کے علمااس بات کے قائل ہیںکہ اتحاد کا مرکز قرآن کریم اور اہل بیت نبوت ہیں اور اگرسارے مسلمان ان کے زیر سا یہ آجا ئیں تو پوری دنیا اسلامی معاشرہ کا مصداق بن سکتی ہے۔
ایک مقام پر خدا وند عالم مسلمانوں کو ماضی سے درس عبرتحاصل کرنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ ( وَلاَتَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَہُمْ الْبَیِّنَاتُ وَاُوْلَئِکَ لَہُمْ عَذَاب عَظِیم) ١٢ تم لوگ گذشتہ ادیان کی امتوں کی طرح نہ ہو جا ئو جو خدا کی نشا نیاں واضح اور روشن ہو جا نے کے بعد بھی فرقوں میں بٹ گئیں اور آپس میں اختلاف کر نے لگیںایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے ۔ مسلمانو! ہوش کے نا خن لو !اور گذشتہ قوموں کی طرح نہ ہو جا ئو کہ جب تک وہ اتحاد سے رہیں کا میاب رہیں اور جب دا من اتحاد کو چھوڑ دیا تو گمراہ و برباد ہو گئیں۔
استاد شہید مطہری اس آیت کے ذیل میں فر ما تے ہیں یہاں جس اختلاف کی طرف اشارہ ہے وہ مذہبی اختلاف ہیں جو سا رے اختلافات سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہیں۔١٣ مذہبی اختلافات کے برے اثرات بھی دیر تک رہتے ہیں نسلوں کو برباد کر دیتے ہیں انہیں اصل مذہب سے دور کر دیتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو اس آیت کے ذریعہ خبر دار کیا جا رہا ہے کہ تم ایسا کام نہ کروجس کی وجہ سے تمہارا حال بھی گذشتہ امتوں کی طرح ہو جا ئے جب کہ تم تو بہترین امت ہو اس لئے تمہاری ذمہ داریاں زیادہ ہیں تم تو دنیا کو ایک پرچم تو حید کے زیر سا یہ لا نے والے ہو ، بر ا ئیوں کو ختم کر نے وا لے ہو تم اتحاد کو قا ئم کر نے کے بعد ہمیشہ اس کی حفا ظت کے لئے کو شاں رہواور اس کا خیال بھی رکھو ۔
قرآن میں ارشاد ہو تا ہے ( وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ ُامَّة یَدْعُونَ ِالَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ )١٤ اور تم میں سے ایک گروہ کوایسا ہونا چاہیئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے اور برا ئیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یا فتہ ہیں ۔ اتحاد کا ذکر اور تفرقے سے بچنے کے حکم کے درمیان اس آیت کو نازل ہونابھی ایک خاص مقصد کے تحت ہے اور وہ یہ ہے کہ اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ نیکی کی طرف دعوت دی جائے اور برا ئیوں سے روکاجائے اور یہ روکنا بھی دینی اعتبار سے ہ اور مقصد اور ہدف، دین کی پیروی ہو۔
قرآن کریم اس بات کی طر ف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ دین کی طرف دعوت دینا اور مل جل کر سعادت کی راہ پر چلنا بھی مشرکوں کو بہت نا گوار معلوم ہوتاہے لہٰذا فرما تا ہے ( َاقِیمُوا الدِّینَ وَلاَتَتَفَرَّقُوا فِیہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ مَا تَدْعُوہُمْ اِلَیْہِ )١٥دین کو قا ئم رکھو ، اور دین میں اختلاف و تفرقہ نہ کرو تم جس چیز(دین) کی دعوت دے رہے ہو وہ مشرکوں کو بہت نا گوار لگتی ہے ۔اس لئے کہ اگر سماج میں عام اتحاد اور یکجہتی ہو تو وہ بھی سماج کو ترقی کی طرف لے جا تی ہے تو جو اتحاد اسلامی اصولوں پر ہو اگر وہ معاشرے میں را ئج ہو جا ئے تو معاشرہ ترقی کی منزلوں کو آسا نی سے طے کرتا ہوا منزل کمال تک پہنچ جائے گا۔ یہی چیز مشرکوں اور تمام دشمنان اسلام کو نا گوار لگتی ہے عجیب بات ہے تمام دشمنان اسلام تو اس بات پر یقین کا مل رکھتے ہیں کہ اگرمسلمان متحد ہو گئے تو ان سب کا راج ختم ہو جائے گا۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان قرآن کے فرا مین کے بعد بھی متحد نہیں ہو رہا ہے قرآن نے بارہا تفرقہ سے روکا ہے ،متفرق نہ ہو ورنہ تمہاری طاقت ختم ہو جا ئے گی تمہا را جاہ و حشم کھو جا ئے گا تمہا ری شوکت ذلتوں کے اندھیرے کنوئیں میں دفن ہو جا ئے گی اور تم پسماندہ ہوجائوگے،ارشادہو تا ہے (و َلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْھَبَ رِیحُکُم )١٦اختلاف نہ کروکہ کمزور پڑجا ئو اور تمہارا رعب و دبدبہ ختم ہو جا ئے ۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اتحاد و یکجہتی قوت و طاقت کا سبب ہے۔اورتفرقہ و پرا کندگی ضعف اور کمزور ی کا سبب ہے جس کا نتیجہ فنا و نا بودی ہے ۔
اس کے علاوہ ایک آیت میں خدا وند عالم نے تمام مسلمانوں کو بھا ئی کہا ہے، یعنی مسلمان صرف اس لئے مل جل کر نہ رہیں کہ وہ صرف مسلمان ہیں بلکہ وہ بھا ئی بھی ہیں ارشاد رب العزت ہے ( ِانَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِاخْوَة) ١٧ بیشک مومنین ایک دوسرے کے بھا ئی ہیں ۔ یعنی تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ تمام براداران دینی کو ایک دوسرے سے مل جل کر رہنا چا ہیئے ۔
خدا وند عالم نے صرف تمام مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام نبیوں اور ان کی امتوں کو بھی امت وا حدہ کہا ہے ارشاد ہو تا ہے (اِنَّ ھَذِہِ ا ُمَّتُکُمْ ا ُمَّةً وَاحِدَةً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِِ)١٨ بیشک یہ(تمام پیغمبر اور ان کی امت ) سب ایک امت ہیں (اور تو حید کے ماننے والے ہیں ) اور میں تم سب کا رب ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔
اتحاد پر اتنی تاکید کے علا وہ فتنہ انگیزی اور تفرقہ کر نے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے اور ان کوعذاب آخرت سے ڈرایا جا رہا ہے چنانچہ ارشاد ہو تا ہے (ا ِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا لَسْتَ مِنْہُمْ فِی شَیْئٍ ِانَّمَا َامْرُہُمْ ِالَی اﷲِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُون)١٩ خدا وند عالم اپنے حبیب سے فر ما رہا ہے جن لوگو ں نے اپنے دین میں تفرقہ کیا اور مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ایسے لوگوں سے آپ ۖ کا کو ئی تعلق و رابطہ نہیں ہے خدا خود ان سے سمجھے گا اور خدا انہیں ان کے انجام دیئے گئے اعمال سے با خبر کر دے گا ۔ ان تمام آیات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جا تی ہے کہ اتحاد و یکجہتی گمراہی سے بچنے کی ایک سپر ہے افتراق و پرا کندگی انسان کو دین سے منحرف کر دیتی ہے اور اس کو ذلت و پسماندگی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے ترقی کی را ہوں سے دور کر دیتی ہے اور سب سے بڑی بات کہ اسلام سے دور کر دیتی ہے اسی لئے اسلام نے مسلمانوں کو ہمیشہ متحد ہو کر رہنے کی دعوت دی ہے اسلامی رہبروںکی کو شش بھی یہی رہی ہے کہ مسلمان ایک ہو کر رہیں، جب تک مسلمان متحد تھے اس وقت تک ترقی کی منزلوں کو تیزی سے طے کر رہے تھے اور روم و فارس جیسی شکست نا پذیر طاقتوں کو اپنے جذبہ ایما نی اور با ہمی اتفاق و اتحاد کی طاقت سے روندڈالا لیکن جب یہی مسلمان دامن اتحاد کو چھوڑ کر اپنے اپنے مفادات کی حصولیابی میں لگ گئے تو تفرقے کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے انہیں اپنے منحوس احاطہ میں لے لیا ۔جس کے نتیجہ میں یہ سب اسلام کے تابناک سورج کی شعا عوں سے محروم ہو گئے اور آج تک استعماری غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے ہیں قرآن کریم ہمیشہ سے مسلمانوں کو آواز دے رہا ہے (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا) ایک ہو جا ئو اللہ کی رسی کو مضبو طی سے تھام لو متفرق نہ ہو لیکن مسلمان ابھی بھی خواب غفلت میں پڑا ہوا ہے ۔
سارے عالم پہ حکومت جنہیں کرنا تھی وہی
بٹ کے فرقوں میں پریشاں ہو ئے ابتر نکلے
(شہید ؔمٹیا برجی)
اہل کتاب سے اتحاد
اسلام اتحاد کا سب سے بڑا علم بردار ہے سکون و امناور صلح و آشتی کا پیغام دینیوالاہے۔ اسلام تمام اقوام عالم کو ایک پر چم تلے آ نے کی دعوت دیتا ہے اور جو اس پر چم تو حید کے زیر سا یہ آجا تا ہے اسے کرمل جل کر رہنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اسلام نے اتحاد کے لئے صرف مسلما نوں پر ہی زور نہیں ڈالا بلکہ دوسرے آسمانی مذاہب جیسے یہودیوں اور عیسا ئیوں کو بھی اتحاد کی دعوت دی ہے۔ خدا وند عالم اپنے حبیب سے فرمارہا ہے کہ اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دیں اور اس آیت میں طریقہ اتحاد بھی بتا دیا جو مسلمانوں کے لئے بھی ایک راہنما کی حیثیت رکھتاہے ۔ (قُلْ یَاَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا ِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ َلاَّ نَعْبُدَا ِلاَّ اﷲَ وَلاَنُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَلاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا ا َرْبَابًا مِنْ دُونِ اﷲِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوا بِاَنَّا مُسْلِمُون )٢٠ اے پیغمبرۖ آپۖ کہہ دیں کہ اے اہل کتاب آئو ایک منصفا نہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنا ئیں آپس میں ایک دوسرے کو خدا ئی کا در جہ نہ دیں ،اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجیئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ہیں۔ یہ ایک کلمہ سے مرادتو حید ہے کہ اے یہودیوں اور مسیحیوںاگر تم اسلام قبول نہیں کرتے تو کم سے کم اسی تو حید پر اتحاد کرلوجس کے تم دعویدار ہوتم بھی تو حید کے ماننے والے ہو اور ہم بھی تو حید کے ماننے وا لے ہیں ۔علا مہ طبا طبائی فرما تے ہیں کہ اس آیت میں جو پیش کش کی گئی ہے وہ تمام اہل کتاب کے لئے ہے اور یہ حکم عمومیت رکھتا ہے ۔٢١
تفسیر مجمع البیان میں شیخ ابی علی الفضل بن حسن طبرسی فرماتے ہیں اہل کتاب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ خدا کے سلسلے میں وہ جو شرک کر رہے ہیں اسے چھوڑ دیں اور صرف خدا کی عبادت کریں ہم بھی خدا ئے و احد کی عبادت کرتے ہیں اور تم بھی اسی کی عبادت کا دم بھرتے ہو تو آؤ اسی پر متحد ہو جا ئیں ۔٢٢
اس سے ایک اور مسئلہ روشن ہو جا تا ہے کہ تمام الہی ادیان کا منبع و مرکز ایک ہے سب میں یکسانیت ہے سب کا محور توحید ہے توریت ، انجیل اور زبور جیسی آسمانی کتابوںکا محور بھی تو حید ہے ،ان کتا بوں نے بھی تو حید کی طرف دعوت دی ہے۔٢٣سارے آسمانی ادیان تو حید کے پر چم دار ہیں تو پھر توحید کے پرستاروں میں اختلاف کیسا ؟تو حید کے ماننے والے مسلمانوں کو تفرقہ کا حق کس نے دیا ؟ تمام مسلمان تو حید کے قا ئل ہیں تو کم سے کم اسی مسئلے میں تمام مسلمان ایک ہو جا ئیں۔ توحید کے ماننے وا لے سا رے اختلافات کو مٹا کر اس اس پر چم تلے جمع ہو جا ئیں ۔
اسلامی اتحاد اقوال معصومین علیہم السلام کی روشنی میں
قرآ ن کریم کے ساتھ ساتھ رب کریم کے خاص نما یندے رسول کریم ۖ اور ان کی آل پاک نے جنہیں خدا نے لوگوں کی ہدا یت کی ذمہ داری سونپی ہے اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے لئے صرف کردی اور مسلمانوں کو آپسی اختلافات سے روکنے کے ساتھ ساتھ انہیں دشمنان اسلام کا شکار بننے سے محفوظ رکھنے کی کو ششیں کیں ۔ جو لوگ ان سچے اور حقیقی رہبروں کے تا بعدار رہے ہیں وہ آج بھی اتحاد و اتفاق کی نعمت سے سرفراز ہو کر اسلام کے زیر سا یہ ترقی کی معراج پر ہیں اور جو پرا کندگی کا شکار ہیںوہ آج بھی غفلت اور جہالت کے اندھیروں میں غرق ہیں یہاں ہم معصومین کی کچھ حدیثوں کو پیش کریں گے جو اسلامی اتحاد کی دعوت دیتی ہیں۔
حضور سرور کا ئنات ۖ فر ما تے ہیں : ثَلاَث لاَ یَغُلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ اِمْرَیٍ مُسْلِمٍ اِخْلَاصُ الْعَمَلِ وَ النَّصِیْحَةُ لِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اللُّزُوْمِ لِجَمَا عَتِھِمْ ٢٤اگریہ تین چیزیں مسلمانوں میں ہوں تو کبھی لغزش ان کے دا من گیر نہیں ہو گی اعمال کو خالصا خدا کے لئے انجام دینا ، رہبران اسلامی سے خیر خوا ہی اور مسلمانوں کی جما عت کے سا تھ رہنا ۔ اتحاد بہتبڑی طا قت ہے جسے تمام دشمنان اسلام ختم کر نا چا ہتے ہیںانسانوں کا پرانا دشمن شیطان بھی ہے جو تفرقہ اور اختلافات کو ہوا دیتا ہے تا کہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرے ،مو لا ئے کا ئنا ت حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام فر ما تے ہیں:اِنَّ الشَّیْطَانَ یُسَنَّی لَکُمْ طُرُقَہ وَ یُرِیْدُ اَن یَّحِلَّ دِیْنَکُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً وَ یُعْطِیَکُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرُقَةِ وَ بِالْفُرْقَةِ اَلْفِتْنَةَ٢٥ شیطان نے اپنے را ستوں کو تم پر آسان کر دیا ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہا رے اتحاد کی گرہوں کو ایک ایک کرکے کھول دے اور تمہیں جما عت سے الگ کرکے فرقوں میں بانٹ دے اور اس تفرقہ سے فتنہ و فساد پھیلا ئے ۔اس حدیث سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ تی ہے کہ متحد رہنے سے انسان فتنہ و فساد سے محفوظ رہتاہے ۔ جہا ں جتنے فرقے ہوں گے وہاں اتنے ہی فتنے ہوں گے
حضرت امام زین العا بدین صحیفہ سجادیہ میں دعا فر ما تے ہیں: وَ ضَمِّ اَہْلِ الْفُرْقَةِ وَ اِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَیْنِ ۔پروردگارا! مجھے فتنوں اور فرقوں میں الجھے لوگوں کو متحد کر نے اور ان کے درمیان موجود اختلافات کو ختم کرنے میں کا میاب بنا ۔
حضور سرور کا ئناتۖ فرما تے ہیں : اَلْجَمَاعَةُ رَحْمَة وَ الْفُرْقَةُ عَذَاب۔ ٢٦ جماعت اور مل جل کر رہنا ایک رحمت ہے اورمتفرق ہوکر الگ الگ رہنا با عث عذاب ہے ۔امیر المو منین حضرت علی فرما تے ہیں :اَلْزِمُوا اَلْجَمَاعَةَ وَ اجْتَنِبُوا اَلْفُرْقَةَ۔٢٧ اپنے اتحاد کو قا ئم رکھو اور تفرقہ اندازی سے پر ہیز کرو ۔نیز مولا ئے کا ئنات فر ما تے ہیں: فَاِنَّ جَمَاعَة فِیْمَا تَکْرَہُونَ مِنَ الْحَقِّ خَیْر مِنْ فِرْ َقةِ فِیْمَا تُحِبُّونَ الْبَا طِلَ ۔ ٢٨وہ حق کی پیرو کا ر جما عت جس سے تم کراہت رکھتے ہو اس با طل گروہ سے بہتر ہے جس سے تم محبت کرتے ہو ۔
آپ آیندہ آ نے وا لے وقت کو بیان کرتے ہو ئے اتحاد کو ضروری بتا تے ہیں ،آپ فر ما تے ہیں : وَ اَنّہ سَیَاتِیْ عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِی زَمَان لَیْسَ فِیْہِ شَیئ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ وَلاَ اَظْہَرُ مِنَ الْبَاطِلِ ۔۔۔ فَاجْتَمِعْ الْقَوْمَ عَلَیٰ الْفِرْقَةِ۔۔۔٢٩عنقریب میرے بعد تمہا رے لئے ایسا زمانہ آئیگا جس میں حق سب سے زیادہ پو شیدہ اور با طل سب سے زیادہ عیاں ہو گا،ایسے دور میں متحد ہو کر رہنا اور فر قوں میں نہ بٹ جا نا ۔ آپ گذشتہ قوموں کے حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ، جب تک وہ قومیں آپس میں متحد تھیں اس وقت تک خوش حالی اور سکون سے ان کی زندگی گذررہی تھی لیکن جب فرقوں میں بٹ گئیں تو وہ برباد ہو گئیں ۔ آپ فرما تے ہیں : اُنْظُرُوا اِلَی الْاُمَمِ السَّابِقَةِ کَیْفَ الَّذِیْنَ تَفَرَّقُوا مِنْ قَبْلِکُمْ بَعْدَ تَوَحُّدِھِمْ۔ ٣٠ ان گذشتہ امتوں کو دیکھو کہ وہ متحد ہو نے کے بعد پرا کندہ ہو گئیں ۔ جب تک یہ قومیں متحد تھیں ترقی کر رہی تھیں لیکن جب آپس میں پھوٹ پڑ گئی تو بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ جب تک الہی پیشوا کی مل کر اطاعت کررہی تھیں اس وقت تک دین و دنیا کی عزتیں ان کے سا تھ رہیں لیکن جب الہٰی نما یندوں کو چھوڑ کر مختلف فرقو میں بٹ نے لگیں تو پھر دنیا وآخرت کی ذلتیں ان کے دا من گیر ہو ئیں ۔
حضرات معصومین (ع) کی حیات طیبہ میں اتحاد کے نمونے
اتحاد کی سب سے زندہ مثال حضور اکرم ۖ کا مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قا ئم کر نا ہے اس سے مسلمانوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت اور ہمدردی بڑھی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئے ۔آپۖ نے مہا جرین و انصار کے درمیان دو مرتبہ اخوت کا رشتہ قائم کیا ۔اس عمل کے ذریعہ آپۖ قرآن کر یم کی آیہ (ِانَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِاخْوَة)تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھا ئی ہیں۔کی تفسیر عملی پیش کر رہے تھے۔
حضور ۖ کے بعد مولا ئے کا ئنات نے بھی اسلامی اتحاد کا مظا ہرہ کیا ،آپ نے اپنا مسلم حق چھن جا نے دیا لیکن اسلامی اتحاد کو ختم نہ ہو نے دیا ،ور نہ اگر آپ بھی اپنے ظاہری فوا ئد کو نظر میں رکھتے تو آپ کے لئے اپنا حق واپس لینا ذرا بھی مشکل نہ تھا ایک ضربت ہی کا فی ہو تی لیکن اسلام کا شیرازہ بکھر جا تا ایک جگہ جمع ہو ئی یہ قوم پھر سے پرا کندہ ہو جا تی، رسول اسلامۖ کی سا ری زحمتیں برباد ہو جا تیںاسلام خطرے میں پڑ جا تااسی لئے آپ نے اپنے مسلم حق سے صرف نظر کیا تا کہ مسلمان متحد رہیں آپ نے خلفا ئے ثلاثہ کی بیعت نہیں کی لیکن اسلام کی بھلا ئی اور اس کو بچانے کے لئے ان لوگوں سے صلح کی اگر امام ایسا نہ کرتے تو ان لوگوں کے بس کی بات نہ تھی کہ اسلام کی کشتی کو سنبھال پا تے وہ لوگ اسلام کو برباد کردیتے مو لا ئے کا ئنات کو یہ گوارا نہ تھا کہ اسلام پر آنچ آئے اسی لئے آپ نے صلح کی اور اس صلح کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے لئے واضح طور پریہ پیغام چھوڑدیا کہ علی کا مسئلہ خلافت ذاتی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اسلامی مسئلہ تھا اگر یہ صرف ذاتی یا خاندانی مسئلہ ہو تا تو علی یقیناسکوت نہ کرتے ۔ آپ نے اسی بات کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے فرما یا:سَلاَمَةُ الدِّیْنِ اَحَبُّ اِلَیْنَامِنْ غَیْرِہِ ۔٣١دین کی سلامتی ہما رے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔آپ کی خلافت کے دوران جب طلحہ اور زبیر نے حکومت کی لا لچ میں فتنہ انگیزی شروع کی تو آپ نے فر ما یا: خلافت کی ابتدا میں میں نے مسلمانوں کو تفرقہ سے بچا نے کے لئے اپنے مسلم حق کو نظر انداز کردیا لیکن یہ لوگ مال و دنیا کی لالچ میں فتنہ و فساد پھیلا رہے ہیں ، مسلمانوں کے د رمیان تفروہ اندازی کررہے ہیں ۔
اسلامی عبادتوں میں وحدت کی جھلک
تمام اسلامی عبادتیں مسلمانوں کو متحد ہو نے کی دعوت دیتی ہیں جس کی سب سے واضح مثال حج بیت اللہ ہے جس میں پوری دنیا کے لوگ جمع ہو تے ہیں مسلمانوں میں ایک دینی جذبہ پیدا ہو تا ہے ۔ حضرت امام علی فر ما تے ہیں:وَ الْحَجُّ تَقْوِیَةً لِلدِّیْنِ ٣٢حج سے دین کو قوت و طا قت ملتی ہے ۔ اسی سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق فر ما تے ہیں : فَجَعَلَ فِیْھِمُ الْاِجْتِمَاعِ مِنَ الشَّرْقِ وَ الْغَرْبِ لِیَتَعَارِفُوا۔٣٣ حج میں مشرق سے مغرب تک کے لوگ جمع ہو تے ہیں تا کہ ایک دوسرے کو پہچا نیں اور ان سے آشنا ہوں۔حج میں پوری دنیا کے مسلمان جمع ہو تے ہیںلیکن مختلف ہو نے کے با وجود احرام باندھ کر ایک ہو جا تے ہیں عرب و عجم،ایرانی و افغانی، ہندی و پاکستانی، گورا و کالا سا رے فرق مٹ جا تے ہیں اور سب کی ایک ہی صدا ہو تی ہے ”اللھم لبیک” اسی طرح نماز جما عت ، نماز جمعہ اور دوسری عبادات جو انسان کو جوڑ دیتی ہیں جب انسان نماز جما عت میں کھڑا ہو تا ہے تو تمام فرق مٹ جا تے ہیں اور سب ایک ہو جا تے ہیں ۔ اسی طر ح تمام مسلمانوںکی زندگی بھی ہو نا چا ہیئے ایک مسلم معا شرے میں ایک ہی پہچا ن ہو نا چا ہیئے (اِنَّمَا نَحْنُ مُسْلِمُونَ ) ہم سب مسلمان ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ معاویہ بن و ہب امام صادق علیہ السلام سے سوال کر تے ہیں کہ ہم شیعہ دوسرے فرقے کے لو گوں سے کس طرح پیش آئیں تو آپ نے فر ما یا : تم یہ دیکھو کہ تمہا ر ے امام ان کے ساتھ کس طرح سے پیش آ تے ہیں ،خدا کی قسم تمہا رے امام ان کے بیماروں کی عیادت کرتے ہیں ،ان کی تشییع جنا زہ میں شرکت کرتے ہیں ان کے معاملات میں گوا ہی دیتے ہیں۔٣٤ ہمارے تمام ائمہ معصومین نے اتحاد کے نمو نے پیش کئے ہیں اورہمیشہ تفرقہ کر نے وا لوں کی مذمت کی ہے اور کبھی بھی فتنہ و فساد کو ہوا نہیں دی ،بلکہ بھڑکے ہو ئے فتنوں کو خا موش کر نے کی ہر ممکن کو شش کی ہے ۔ اور ہمیشہ ایک اسلامی ما حول بنا نے میں کو شا ں رہے ہیں ان سا ری با توں سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر رہنا چا ہیئے اسی میںاسلام کی بقا ہے ۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چا ہیئے کہ عصر حاضر کی سب سے اہم ضرورت مسلمانوں کا با ہمی اتحاد ہے ۔ اگر ہم نے آج کے دور میں اتحاد نہیں کیا تو مستقبل میںاسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرات اور بڑھ جا ئیں گے۔ خاص کر ہم شیعوں کو تو اپنے ائمہ اور دوسرے دینی رہبروں سے رہنما ئی لینی چا ہیئے کہ کس طرح انہوں نے پر آشوب اور گھٹن وا لے ما حول میں بھی اسلامی مصلحتوں کو ہی مد نظر رکھا ہے۔ ان کی زحمات ہیںجو آج یہ اسلام ہم تک پہنچا ہے ۔ اب ہمارا فریضہ ہے کہ ہم بھی پوری امانت داری کے ساتھ اسلام کو اپنی آیندہ آنے وا لی نسلوں تک پہنچا ئیں اور اتحاد کے ذریعہ اسلام کی حفا ظت کریں ۔
وآخر دعوا نا ان الحمد للہ رب العالمین۔
حوالے
١۔اتحاد اسلامی، ص٦٣
٢۔سورۂ آل عمران،آیت ١٠٣
٣۔اتحاد اسلامی ص٣١
٤۔مجمع البیان ،ج١،ص ٨٠٥و بہج الصبا غہ،ج٢،ص٣٠١
٥۔مجمع البیان ،ج١،ص ٨٠٥
٦ ۔معالم التنزیل فی تفسیر القرآن ،ج١،ص٤٨١
٧۔تفسیر الجلالین،ج١،ص٦٦
٨۔التسہیل لعلوم التنزیل،ج١،ص١٦١
٩۔شواہد التنزیل لقواعد التفضیل،ج١،ص١٦٨
١٠۔شواہد التنزیل لقواعد التفضیل،ج١،ص١٦٩
١١۔روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم،ج٢، ص ٢٣٥ و الدر المنثور فی تفسیر الماثور ،ج٢،ص٦٠
١٢۔سورۂ آل عمران ،آیت١٠٥
١٣۔اتحاد اسلامی ص ٣١
١٤۔سورۂ آل عمران ،آیت١٠٤
١٥۔سورۂ شوریٰ ،آیت ١٣
١٦۔سورۂ انفال ،آیت ٤٦
١٧۔سور ہ ٔحجرات،آیت ١٠
١٨۔سورۂ انبیائ،آیت ٩٢
١٩۔سورۂ انعام،آیت ١٥٩
٢٠۔سورۂ آل عمران،آیت ٦٤
٢١۔المیزان فی تفسیر القرآن ج٣ ،ص٣٤٦
٢٢۔مجمع البیان،ج٢،ص٧٦٧
٢٣۔المیزان ،ج٢ ،ص٣٤٦
٢٤۔خصال شیخ صدوق ج٢ ص ٢٢٤
٢٥۔نہج البلاغہ ص ١٧٧
٢٦۔کنز العمال ح ٢٠٢٤٢
٢٧۔شرح غرر الحکم ،ج٢ ص٤٠
٢٨۔نہج البلا غہ ، خ ١٧٦
٢٩۔نہج البلاغہ ،خ ١٤٧
٣٠۔نہج البلاغہ نبراس السیاسہ و منھل التربیہ ص ٧٥
٣١۔نہج البلاغہ ،خ٦٥
٣٢۔نہج البلا غہ ،کلمات قصار ٢٢٤
٣٣ ۔اتحاد اسلامی ،ص ٦٦
٣٤۔اصول کا فی ،ج٢ ،ص ٦٣٦