Fundraising

اتحاد و وحدت ملت پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ کے اقوال کی روشنی میں

About Event

اتحاد و وحدت ملت

پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ کے اقوال کی روشنی میں

تحریر: حجہ الاسلام مولانا جناب سید محمد مجتبیٰ علی رضوی صاحب، دہلی

تمہید

اتحاد ایک ایسی نعمت ہے جو قوموں کو آباد کر تی ہے دنیا میں امن و سکون اسی اتحاد ملت کا مرہون منت ہے اور اختلافات تمام برائیوں کی جڑ ہے بڑی سے بڑی حکومت اور بڑے سے بڑا معاشرہ بھی جب اختلافات کا شکار ہو جا تا ہے تو زوال پذیر ہو جا تا ہے۔ اکثر قوموں کی بربادی کسی نہ کسی بے بنیاد اختلافات کی وجہ سے ہی وجود میں آئی ہے ۔تمام آسمانی ادیان و مکاتب نے بھی اتحاد کا ہی درس دیا ہے اس کے علاوہ وہ مکاتب فکر بھی جو اگر چہ ادیان آسمانی نہیں بھی تھے لیکن انسانیت بھائی چارہ اور اتحاد کا درس دیتے نظر آ تے ہیں ۔

 اختلاف اور خلفشار سوائے متعصب، موقع پرست اور خود غرض افراد کے علاوہ کو ئی ایجاد نہیں کر تا ہے، کیونکہ اگر ہم کسی دین و مذہب کی تعلیمات عام کریں  اور کسی مکتب فکر کی اچھائیاں بتائیں تو کسی کو اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہو گا سوائے ان لوگوں کے جو اپنی ہٹ دھرمی اور خود غرضی کی وجہ سے اس کی مخالفت کریں۔ ابتدائے اسلام میں بھی ہم یہی دیکھ تے ہیں کہ جب حضور اکرم (ص)نے اسلام کا اعلان کیا توابو جہل و ابو لہب جیسے خود غرض لوگوں اور امیہ جیسے متعصب  افراد نے اپنے ہم نواؤں کے ساتھ مل کر اسلام کی مخالفت کی جب کہ عام افراد نے مخالفت نہیں کی بلکہ اکثر ان ہی لوگوں کے شکار ہو نے والوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی۔ اوریہ بتا دیا کہ سوائے معتصبی لوگوں کے اچھے پیغامات کی کوئی مخالفت نہیں کر تا ہے ۔ خدا وند عالم نے قرآن کریم میں بھی ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ لوگ ایسے بھی ہیں کہ لاکھ دلیلیں دے دی جائیں لیکن اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے ہو ئے واضح اور روشن دلیلوں کے آجا نے کے بعد بھی اختلافات کرتے ہیں اور اس کا انجام بہت سخت عذاب کی صورت میں ان کا منتظر ہے چنانچہ ارشاد ہو رہا ہے ( وَلاَتَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَہُمْ الْبَیِّنَاتُ وَُوْلَئِکَ لَہُمْ عَذَاب عَظِیم )١ اور خبر دار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجا ئو جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجا نے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے بہت سخت عذاب ہے ۔

انسانوں کے پاس اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے خصوصا  مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کے ہو تے ہو ئے اختلاف کرنے کا کوئی معمولی سا بھی بہانا نہیں ہے سوائے تعصب، جہالت اور خود غرضی کے۔یہاں ہم رسول کریم کے بیانات کی روشنی میں اتحاد کی ضرورت اور اس کے فائدہ کو پیش کر رہے ہیں اور اختلافات اور خلفشار کے نقصانات کو بھی حدیث کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔

٭فرمان وحدت

اسلام کا ایک نظام ہے جو پوری دنیا کے لئے ہے ظاہر سی بات ہے جو دین اتنا بڑا نظام لے کر آئے گا تو رہبر بھی تو وہی معین کرے گا ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ نظام عالمی ہو اور رہبر عام سا سادہ سا انسان ہو، جب دین عالمی ہے رہبر بھی عالمی بصیرت رکھنے والا ہو گا عالم کائنات ہو گا۔ پیغمبر اکرم فرما تے ہیں ولی امر کی اطاعت کرو جو اسلام کے عالمی نظام کا رہبر ہے سرکار ختمی مرتبت نے اس طرح فرمایا ہے:”اسمعوا و اطیعوا لمن والاہ اللہ الامر فانہ نظام الاسلام ”٢  الٰہی حاکموں کی اطاعت کرو ان کے فرمانبردار رہو کیونکہ الٰہی رہبروں کی پیروی کا ثمرہ امت مسلمہ کا اتحاد ہے۔

اگر تمام مسلمان اور کلمہ پڑھنے والے الٰہی نمائندوں کی پیروی کرکے اس الٰہی نظام کو قبول کر لیتے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے رائج فرمایا تھا، جس کی بنیاد مکہ میں پڑی اور جو مدینہ کی گلیوں میں پروان چڑھا تو پورے دنیائے اسلام میں کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہ ہو تا اس لئے کہ اسلامی نظام میں کہیں بھی کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ صرف ماننے والوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے بجا ئے اپنی باتوں کو اہمیت دی جس کے نتیجہ میں اختلاف وجود میں آیا جو مختلف حکومتوں کا شکار ہو کر مزید بڑھتا ہی گیا۔

٭وحدت کا محور

ہر چیز کا ایک محور اور مرکز ہو تا ہے اسی طرح اتحاد کا بھی ایک محور ہے اور محور کو بہت مضبوط ہو نا چا ہیئے بلکہ جو جس چیز کا محور ہے اسے اس کی مناسبت سے ہو نا چاہیئے اسی طرح اسلام کا بھی ایک محور ہے تو یہاں بھی وہی قاعدہ لاگو ہو گا کہ چونکہ اسلام عالمی ہے ابدی ہے تو اب اس کا محور بھی وہی بنے جو افاقی حیثیت کا حامل ہو اور قیامت تک اثر و رسوخ رکھتا ہو تو اس کے پیش نظر سوائے اہل بیت کے کسی میں بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ جو اسلام کا محور بن سکے۔ چنانچہ اسی بات کو سرکار ختمی مرتبت نے اس طرح بیان فرمایا ہے:”فانتم (اہل البیت) اہل اللہ عزوجل الذین بھم تمت النعمة و اجتمعت الفرقة و ائتلفت الکلمة” ٣  اہل بیت اہل اللہ ہیں یعنی اللہ والے ہیں آپ ہی کی برکت کی وجہ سے نعمتیں مکمل ہو گئیں اور پراکندگی بر طرف ہو ئی اور وحدت کلمہ وجود میں آئی۔وحدت اور اتحاد کا محور صرف اور صرف رسول(ص) اور آل رسول ہیں ان کے بغیر اسلام اور اسلامی معاشرہ میں وحدت کی فضا قائم نہیں ہو سکتی اگر امت مسلمہ کو ایک ہونا ہے اور اپنی کھوئی ہو ئی عزت واپس حاصل کرنا ہو تا اہل بیت  کی مرکز یت میں اتحاد کرنا ہی ہو گا۔

٭وحدت کے عوامل

تمام انسان ایک ہی ہیں ایک ماں باپ کی اولاد ہیں لہٰذا ان کے خون بھی ایک ہیں اور دشمنوں کے مقابلہ میں سب برابر اور ایک ہیں ان میں سے کسی کو بھی نقصان ہوا تو وہ نقصان سب کا ہے پورے سماج کا نقصان ہے۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہے اسی بات کو پیغمبر رحمت (ص)نے یوں فرمایا ہے ” المومنون اخوة تتکافئو دماء وھم و ھم ید علی من سواهم” ٤  مومنین آپس میں بھائی ہیں ان کے خون برابر ہیں، اور دشمنوں کے مقابلہ میں سب متحد اور ایک ہیں ۔اس حدیث میں یہ واضح ہو گیا کہ اسلام نے فرقوں کے امتیازات کے ساتھ ساتھ تمام رنگی اور نسلی ،علاقائی اور طبقاتی، سماجی اور معاشرتی تمام طرح کے فرق کو بھی ختم کردیاہے اور سب کو ایک اللہ پر ایمان کی صف میں لا کر کھڑا کردیا ہے اور سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنا کر یکسانیت عطا کی ہے۔

٭اسلامی برادری

خدا وندعالم نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسے رشتہ میں باندھ دیاہے کہ جس میں سب برابر ہیں اور انسانیت کا یہی ایک ایسا رشتہ ہے جہاں برابری پا ئی جاتی ہے اور وہ ہے بھائی کا لہٰذا قرآن کریم نے بھی یہی کہا ہے کہ مومنین آپ میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اسی بات کو پیغمبر اکرم (ص) بھی فرما رہے ہیں کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں یعنی ایک تو یہ کہ سب ایک ہیں دوسرے یہ کہ کسی کو بھی کسی پر کسی بھی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ الٰہی کے یعنی اب تقویٰ کی منزلوں میں جو آگے بڑھے گا وہی اس کے لئے دوسروں سے برتری دلا ئے گا اور اس کے امتیازات اور درجوں کو بڑھا ئے گا لہٰذا نبی کریم (ص) فرما تے ہیں :”المسلمون اخوة لا فضل لاحد علی احد الابالتقوی” ٥  تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور صرف تقویٰ کے علاوہ کوئی بھی ایک دوسرے پر کسی بھی قسم کی برتری نہیں رکھتا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سوائے تقویٰ الٰہی کے کسی کو بھی کسی پرکو ئی امتیاز نہیں رکھتا ہے۔

 ٭ایک دوسرے کا تعاون

اب جب سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو اب سب کا فریضہ ہے کہ ایک دوسرے کی جہاں تک ممکن ہو مدد کریں ایک دوسرے مومن کا سہارا بنیں اور اس طرح ایک مومن دوسرے مومن کی حمایت اور مدد کے لئے کھڑا ہو جا ئے جیسے سیسہ پلائی ہو ئی دیوار ہو چنانچہ رسالت مآب فرما تے ہیں : ” المومن للمومن کالبنیان المرصوص یشد بعضہ بعضاً” ٦  مومن مومن کے لئے سیسا پلائی ہو ئی دیوار کی طرح ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے کو مدد کرتے رہتے ہیں۔تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیںایک جسم کی مانند ہیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق اور عمیق رشتہ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی طاقت اور تقویت کا سبب بنتے ہیں ،اسی طرح ایک اور حدیث میں مومن کو جسد واحد قرار دیا گیا ہے ، کہ مومن ایک جسم کی طرح ہیں کہ جس طرح جسم کا ہر حصہ دوسرے حصوں کا ساتھی اور ایک دوسرے سے متعلق ہو تا ہے اسی طرح مومن مومن کا ساتھی اور اس کا مددگار اس کی طاقت ہو تا ہے۔

٭الفت و دوستی

جس سب ایک دوسرے کے ساتھی اور مدد گار ہیں تو پھر ایک دوسرے میں الفت و محبت بانٹیں اور ایک دوسرے سے تعلق بحال رلکھیں۔ محبت کریں تا کہ معاشرہ ترقی کی راہ میں گامزن رہے چنانچہ حضور اقدس(ص) فرما تے ہیں:”خیرالمومن من کان مالفة للمومنین ولاخیرفیمن لا یالف ولا یولف” ٧ بہترین مومنین وہ ہیں کہ جو دوسرے مومنین کے لئے محبت کا محور بنیں جو دوسرے سے مانوس نہ ہوں اور جو افراد ایک دوسرے کے لئے انسیت الفت کا محور نہ بنیں تو ایسے لوگوں میں کو ئی خیر نہیں ہے ۔مومنین ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ایک دوسرے سے انسیت رکہتے ہیں اور ان میں یہ آپسی تعلق اللہ پر ایمان ی وجہ سے ہی ممکن ہو تا ہے چونکہ سب کی منزل ایک ہو تی ہے اور مقصود بھی ایک ہو تا ہے تو پھر ایسی صور ت میں اختلاف کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ہے اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قلبی سکون کا با عث بنتے ہیں۔

٭وحدت میں اللہ کی مدد شامل حال

جب سماج اور معاشرہ میں اتحاد ہو گا اور سب ایک ہوں گے کسی بھی قسم کا آپسی اختلاف نہ ہو گا اور پوری مسلم امت ایک ہو گی تو پھر ایسی جماعت پر اللہ کی رحمتیں نازل ہو ں گی اورپھروہ قوم تائید خداوندی سے سر شار ہو گی چنانچہ ارشاد نبوی (ص) ہے کہ :”ید اللہ علی الجماعة” ٨  جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے خداکی تائید عوام کے ساتھ ہے اتحاد میں ہے جہاں افتراق و اختلاف ہو گا وہاں لوگ الگ الگ ٹکڑوں میں بٹے ہوں گے نتیجہ میں تائید الٰہی کسی کے بھی شامل حال نہ ہو گی لیکن جہاں اتحاد ہو گا اور لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے سب مل کر ایک معاشرہ اور ایک دینی سماج بنا ئیں گے الٰہی نظام رائج کریں گے دین دار ہوں گے اسی معاشرہ کو رب کریم بھی اپنی رحمتوں سے نوازے گا اور اہل بیت کی معیت بھی نصیب ہو گی جہاں ایسا ہو گا وہاں برکتیں بھی ہوں گی اور ترقی کے سارے امکان بھی وجود میں آ ئیں گے۔

٭اختلاف عذاب الٰہی

 جہاں اتحاد پر اتنا زور دیا گیا ہے اور آیات قرآنی اور سرکار ختمی مرتبت کی احادیث موجود ہیں کہ جو مسلمانوں کے آپسی اتحاسد پر اتنا زور دے رہی ہیں تو ایسان ہیں کے کہ اختلافات کے نقصانات اور مضرات سے آگاہ نہ کیا گیا ہو بلکہ جہاں اتحاد اور یکجہتی پر زور ہے وہیں عدم اتحاد او ر اختلافات کے خوفناک نتائج اور نقصانات سے بھی مکمل طور پر آگاہ کیا گیا ہے ۔چنانچہ آپ(ص) فرما رہے ہیں:”الجماعة رحمة و الفرقة عذاب”٩   وحدت رحمت کا سبب ہے اور اختلاف و افتراق عذاب کا موجب ہے ۔ جہاں وحدت ہو تی ہے معاشرہ میں ایکتا ہو تی ہے وہاں رحمت خدا بھی شامل حال ہو تی ہے، اسی طرح جہاں اختلاف ہوگا وہاں معاشرہ عاب کا مستحق ہو گا اور رحمتیں دور ہو جا ئی ں گی۔

٭اختلاف ہلاکت کا باعث

بہت سے لوگ اس بات سے غفلت برتتے ہیں کہ عذاب اور سزا تو دوسری دنیا یعنی آخرت کی ہے تو دنیا میں جو چا ہیں کر لیں یہاں کون سا نقصان ہو رہا ہے نہیں جناب یہاں بھی اس کے نقصانات موجود ہیں خود رسالت مآب فرما رہے ہیں کہ گذشتہ قوموں کی بربادی کا ایک بڑا سبب ان کا آپسی اختلاف تھا ، ظاہر سی بات ہے کہ آپسی اختلاف سے بڑی سے بڑی قوم متاثر ہو سکتی ہے اور ان کی طاقت ختم ہو سکتی ہے اور فتنہ پرور افراد کو اسی درمیان موقع مل جاتا ہے کہ جو قوموں کی حکومتوں کی  بربادی اور ہلاکت کا سبب بن جا تی ہے لہٰذا نبی رحمت  (ص)فرما رہے ہیں:”لاتختلفوافان من کان قبلکم اختلفوافھلکوا” ١٠ آپس میں اختلاف پیدا نہ کروکیونکہ تم سے پہلے والی جن قوموں نے بھی اختلاف کیا وہ اپنے اختلاف کی وجہ سے برباد ہو گئیں اور ہلاکت ان کا مقدر بن گئی ۔ گذشتہ اقوام میں بہت سی قومیں آپسی اختلافات کی وجہ سے نابود ہو گئیں ہیں اور کسی بھی قوم کی بربادی کے لئے آپسی اختلافات جتنا کار گر حربہ ہو سکتے ہیں اتنا کوئی ہتھیار بھی نہیں کام آتا ہم اپنے ملک عزیز میں بھی اس کی بہت سی مثالیں محسوس کر سکتے ہیں۔ آپسی اختلافات کی وجہ سے ہی بڑی سے بڑی حکومتیں تک ہل گئی ہیں اور قومیں برباد ہو گئی ہیں۔

٭اختلاف،اسلام سے باہر نکلنے کی وجہ

جس سماج میں تفرقہ اور اختلافات موجود رہیں گے اور لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو تے رہیں گے تو ایسے افراد دائرہ اسلام سے باہر ہو تے رہیں گے یعنی اسلامی معاشرہ کے خلاف ہے کہ لوگ مسلم معاشرہ سے کٹتے رہیں اسی سلسلہ میں سرکار رسالت مآب فرما تے ہیں:”من فارق الجماعة شبرا خلع اللہ ربقة الاسلام من عنقہ” ١١  جو شخص ایک بالشت بھر بھی بلاوجہ اسلامی معاشرہ سے دور ہو جا ئے گاتو خداوند عالم اسے دائر ہ اسلام سے باہر کر دیتا ہے۔بے بنیاد اختلافات کی وجہ مسلم معاشرہ سے کنارہ کش ہو نا سماج اور معاشرہ کی بربادی کا پیش خیمہ ہے اسی طرح لوگ لڑتے رہے اور الگ ہو تے رہے تو معاشرہ ختم ہو جا ئے گا لہٰذا معاشرہ سے کٹ کر رہنا مناسب نہیں ہے ، ایکتا میں طاقت ہے اتحاد میں قوت اور معاشرہ کی ترقی مضمر ہے ۔

٭قومیت پر کسی کی برتری نہیں

کسی علاقہ یا قوم سے ہونا یہ کسی کے لئے برتری یا امتیاز نہیں ہے ،اسلام نے کسی بھی طرح کے انسانوں کے بنائے ہوئے امتیازات اوت تفریق کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی عربی عجمی کا کوئی فرق ہے بلکہ انسان ہو نے میں سب برابر ہیں عربی ہونا بھی کو ئی امتیاز نہیں ہے بلکہ یہ صرف زبانی اور لسانی فرق ہے چنانچہ حضور(ص)  فرما تے ہیں :”یا ایھا الناس! ان الرب واحد والاب واحدو ان الدین واحد لیست العربیة لاحدکم باب و لا ام و انما ھی اللسان فمن تعلم العربیة فھو عربی” ١٢  اے لوگو! ہمارا رب ایک ہے (اللہ) سب کے باپ ایک ہیں ( آدم ) سب کا دین ایک ہے ( اسلام ) عربی ہو نا کسی کے ماں باپ نہیں ہیں(قومیت نہیں ہیں) بلکہ عربی ایک زبان ہے اور جو اس زبان کو سیکھ کر بولنے لگے گا عربی ہو جا ئے گا ۔ عام طور سے لوگوں میں لڑنے اور جھگڑنے کی کو ئی بنیادی وجہ نہیں ہے جب کہ اتحاد اور یکجہتی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سب کا رب ایک ہے، ماں باپ (آدم و حوائ) ایک ہیں سب ان ہی کی اولاد ہیں، عربی ہو نا بھی کسی کی قوم نہیں ہے یعنی عرب و عجم کا بھی کوئی فرق نہیں ہے بلکہ عربی صرف ایک زبان ہے اور جو بھی اس زبان کو سیکھ کر بولنے لگے گا وہ عربی ہو گا،  تو نہ ہی کسی کو علاقائی فوقیت حاصل ہے اور نہ ہی قومی فوقیت حاصل ہے بلکہ اس معاملہ میں سب برابر ہیں۔

٭من مانی کا خطرہ

جو لوگ سر کشی کرتے ہیں اپنے رہبر کے مخالف ہو کرتے ہیں اپنے سرداروں کو نہیں ما نتے ہیں یا جو اپنی حدود کا پاس نہیں رکھتے ہیں ایسے لوگ معاشرہ کے لئے بھی نقصان دہ ہیں اور دوسرے افراد کے لئے بھی نقصان دہ ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم (ص)فرما تے ہیں :”ثلاثة لا تسال عنھم:رجل فارق الجماعة و عصی امامہ و مات عاصیا، وامة اوعبد آبق من سیدہ فمات، و امراة غاب عنھا زوجھا و قدکفاھاموونة الدنیا فتبرجت بعدہ فلا تسال عنھم” ١٣  تین طرح کے لوگوں سے کبھی بھی مشورہ مت کرنا:١۔ ایسے شخص سے جو معاشرہ سے بے بنیاد اختلاف کی وجہ سے دور ہو ، اپنے اما م کا باغی ہو اور اسی عالم میں مرجا ئے ۔ ٢۔ ایسی کنیز اور غلام سے کہ جو اپنے مالک کا باغی ہو اور اسی عالم میں مرجا ئے۔٣۔ ایسی خاتون سے کہ جس کا شوہر اس سے دور ہو اور وہ اپنی زوجہ کو مخارج(کام کی وجہ سے دور ہو اور اس کا نان و نفقہ برابر) بھیجتا ہو او ر وہ شوہر کی غیر موجود گی میں آرائش اور غیروں میں خود نمائی کرے۔ انسان کو کبھی کبھی ایسے مسائل اور معاملات در پیش آ تے ہیں کہ جب اسے دوسروں سے مشورہ کرنا پڑتا ہے با تیں کرنا پڑتی ہیں اس کے لئے پیغمبر اکرم (ص) فرما تے ہیں کہ اپنے کو بڑا سمجھدار نہ سمجھو بلکہ مشورہ کرلو اور مشورہ کے وقت بھی اس بات کا خیال رہے کہ کس سے بات ر رہے ہو اور اپنے مسائل کس کے سامنے پیش کر رہے ہو اگر ایسے شخص سے گفتگو کرو گے کہ جو معارہ سے کٹا ہوا ہے اور اپنے رہبر کا باغی ہے تو ایسا شخص تمہیں بھی نقصان پہنچا ئے گا لہٰذا ایسے افراد سے دور رہو، اپنے آقا کے باغی کنیزوں اور غلاموں سے دور رہو اور ایسی عورتوں سے بھی دور ہی رہو کہ جو شادی شدہ ہو نے کے با وجود شوہر کی غیر موجود گی میں دوسروں کے لئے سجتی سنورتی ہوں ایسے لوگ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں ایسے لوگوں سے معاشرہ کو نقصان پہنچتا ہے ۔

٭جہالت کی موت

جو جماعت مسلمین سے بلا کسی معقول وجہ کے کٹ کے رہنے لگا اور بلا وجہ دور ہوا وہ اگر اسی عالم میں اس دنیا سے جا ئے تو گویا وہ زمانہ جاہلیت میں مرا ہے  چنانچہ ارشاد رسالت ہے کہ:”من فارق الجماعة مات میتة جاہلیة” ١٤  مسلم معاشرہ سے بلا وجہ کٹ کر رہے والا شخص اگر مر جا ئے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو تی ہے ۔ معاشرہ اور سماج سے بلا کسی صحیح وجہ سے کٹ کر رہنے والا شخص گویا ایسا ہے کہ جو اسلام سے دور ہے اور اسی دوری اور کنارہ کشی کے عالم میں اگر وہ مرجا ئے تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

معاشرہ اور سماج سے کٹنے والا شخص گویا ایسا ہے جو اسلام سے دورہے اور اسی دوری اور کنارہ کشی کے عالم میں اگر وہ مرجا ئے تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ، سماج سے کٹ کر اور بے تعلق ہو کر رہنے والے شخص کی کو ئی حیثیت ہی نہیں ہے اور ایسا شخص گویا اس طرح کا ہے جیسے کو ئی ظہور اسلام سے پہلے زمانہ ٔ جا ہلیت میں رہے رہا ہو اور اسی عالم میں اگر اس کی موت آجا ئے تو وہ موت زمانہ ٔ جا ہلیت کی موت ہے ۔

٭ اختلاف کے نتائج

اختلافات کا نتیجہ بربادی اور مغلوب ہو نا ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی اہل حق کے درمیان اختلافات کو ہوا ملی ہے وہاں اہل باطل کا تسلط ہو گیا ہے اور سارے اہل حق مغلوب ہو گئے ہیں آپسی اختلاف ہلاکت کا سبب ہے پیغمبر اکرم (ص)نے بھی گذشتہ امتوں کے انجام کی خبر دی ہے کہ اختلافات کے نتیجہ میں ان کا کیا انجام ہوا کہ حق پر ہو نے کے باوجود وہ شکست کھا گئے اور اہل باطل ان پر مسلط ہو گئے ۔چنانچہ حدیث نبوی ہے:”ما اختلف امة بعد نبیھا الا ظہر اہل باطلھاعلی اہل حقہا ”١٥  جس امت نے بھی اپنے نبی کے جا نے کے بعد اختلاف کیا ہے آپس میں لڑے ہیں تو ان پر باطل گروہ حاوی ہو گئے اور ان کو اپنا اسیر بنا لیا ہے۔

جب گذشتہ امتیں اپنے اپنے نبیوں کے بعد اختلافات کا شکار ہو گئیں تو یہی اختلاف ان امتوں کے زوال کا سبب بن گیا، اور ان کے اختلافات نے ان امتوں کو کمزور اور بے بس کردیا جس کی وجہ سے اہل باطل ان پر غالب آگئے اور ان پر مسلط ہو گئے۔

٭ دین کا خاتمہ

آپسی اختلافات کا نتیجہ صرف اتنا ہی نہیں ہو تا بلکہ اس سے ایمان بھی کمزور پڑ جاتا ہے کیوںکہ جب اختلافات کی وجہ سے حالات خراب ہو جا تے ہیں تو ایسی صورت میں دین بچانا بھی مشکل ہو جا تا ہے اور انسان ایسا ہو جا تا ہے کہ جیسے دین اس کے پاس  تھا ہی نہیں جس طرح سر سے بال مونڈھ جا تا ہے اختلافات کے نتیجہ میں اسی طرح سے دل سے ایمان کا خاتمہ ہو جا تا ہے لہٰذا نبی رحمت فرما تے ہیں: ”الا ان فی التباغض الحالقة لا اغنی حالقة الشعر”١٦  یہ بات جان لو کہ اختلافات اور دشمنیاں کاٹ چھاٹ دیتی ہیں جس طرح سے استرا سر کے بالوں کو تراش دیتا ہے ۔ اسی طرح دشمنی اور اختلاف دین کا تراش دیتی ہے اور سرے سے کاٹ دیتی ہے۔

اسلامی سماج میں اختلاف اور دشمنی کا سیدھا نقصان دین اور ایمان کو ہوتا ہے، جس طرح سے استرا سر سے بال مونڈھ دیتا ہے اسی طرح سے اختلافات اور دشمنی انسان سے دین کا مونڈھ دیتے ہیں جس سے دین ہم سے دور ہو جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ اختلافات اور دشمنیاں سیدھے دین اور ایمان کو نقصان پہنچا تی ہیں۔

آخر کلام

 ان نورانی احادیث کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو جا تی ہے کہ اتحا قوم و ملت اور آپسی یکجہتی اور بھائی چارہ جتنا اہم اور مفید ہے اختلافات اتنے ہی برے اور نقصان دہ ہیں لہٰذا ہر کلمہ گو کا فرض ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی میں مگن رہنے کے بجائے اسلامی حقائق کو قبول کرے اور امت مسلمہ کے درمیان پا ئے جا نے والے بے جا اور بیکار کے اختلافات کو ختم کیا جا ئے،جو اسلام کے محسن ہیں اہل ہیں جن کی اسلام کے لئے خدمات ہیں ان کو ہی سر آنکھوں پر رکھا جا ئے لیکن جو بھی پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے لئے ننگ و عار کا سبب بنے ہیں چا ہے جو بھی رہا ہو جس زمانہ میں بھی رہا ہو اس کے تمام تر تقدس کو ختم کرکے سرکار ختمی مرتبت کے فرامین کی روشنی میں صرف  انہیں ہی محترم سمجھیں جن کا تعارف رسالتمآب نے اپنی حیات طیبہ میں کرایا ہے اور جن کی اولادوں کا ذکر خیر آپ نے احادیث میں بیان فرمایا ہے ان کے علاوہ تاریخ کے خود ساختہ تمام محترم نما ابن الوقت افراد سے کنارہ کشی کی جا ئے اور ایک اسلام کے ماننے والے ایک اللہ ،ایک قرآن، ایک قبلہ، ایک نبی کا عقیدہ رکھنے والے اسی پیارے نبی کی بات مان لیں اور نبی محترم نے جن کی محبت دل میں بسانے کو کہا ہے بس انہیں سے وابستہ ہو جا ئیںتمام تر اختلافات کا خاتمہ ہو جا ئے گا کیوںکہ اہل بیت علیہم السلام آل نبی ہیں، مرکز رحمت و نعمت ہیں محور اسلام ہیں اور خود رسول مقبول کی حدیث کے مطابق محور اتحاد صرف اہل بیت ہیں دنیا ان سے وابستہ ہو تو مسلمان پوری دنیا میں ایک ہو جا ئیں۔

بار الہا! ہم سے کو متحد ہو نے کی توفیق عطا فرما۔اہل بیت نبی سے وابستہ رہنے کی توفیق عنایت فرما ، و الحمد للہ رب العالمین۔

حوالے

١۔سورہ آل عمران، آیت ١٠٥

٢۔امالی شیخ مفید، ج١، ص ١٦، م٢، ح٢

٣۔الکافی، ج١،ص ٤٤٦

٤۔الکافی، ج١، ص ٤٠٤

٥۔کنز العمال، ج١ ،ص١٤٩، نہج الفصاحہ، ح ٣١١٢

 ٦۔صحیح مسلم، ج٤،ص١٩٩٩، نہج الفصاحہ،ح ٣١٠٣

٧۔بحار الانوار، ج٧١،ص ٣٩٣

٨۔ نہج الفصاحہ، ح٣٢١١

٩۔ نہج الفصاحہ، ح ١٣٢٣

١٠۔کنز العمال ، ح ٨٩٤

١١۔الکافی، ج١، ص ٤٠٤، نہج الفصاحہ، ح ٢٧٦٩

١٢۔معالم الحکومة، ص ٤٠٤

 ١٣۔نہج الفصاحہ، ص ١٢٢٤

١٤۔نہج الفصاحہ، ٢٨٥٥

١٥۔اکنز العمال، ح ٩٢٩

 ١٦۔الکافی ، ج ٢ ، ص ٣٤٦

NEWSLETTER

Subscribe now to receive the latest news about discounts